اپنی آواز سے آواز چرا لائی ہوں
میں تو ہر فرد کا انداز چرا لائی ہوں
ہنس رہے ہیں سبھی اس زیست کی عریانی پر
جب سے احباب کے میں راز چرا لائی ہوں
چالبازوں کے محلے سے سرِ شامِ فراق
دیکھو میں عشق کے دمساز چرا لائی ہوں
شعر سننا تھا مجھے تیری جوانی پہ کوئی
اس لیے تو یہ سخن ساز چرا لائی ہوں
دل گرفتہ ہیں سبھی آج کبوتر ہر سو
اُس کی بستی سے کوئی باز چرا لائی ہوں
اڑ نہ پائے گا کبھی وشمہ عدو کا پنچھی
اس پرندے کی جو پرواز چرا لائی ہوں