اپنی اپنی ذات میں گُم ھیں
شِیشے کے محلات میں گُم ھیں
لیڈر ہیں یا سوداگر ہیں
مال و حوس خواهشات میں گُم ھیں
اُن کا مقصد ، دولت شہرت
اور ہم ہیں جذبات میں گُم ھیں
سیدھا رستہ بھول چکے ہیں
چھوڑ کے دن کو ،رات میں گُم ھیں
کوئی تو اُن کا بھی سوچے
جو قاسم ، آفات میں گُم ھیں