اپنی سوچوں سے کئی خوف و خطر باندھے ہوئے
کب سے بیٹھے ہیں یہاں رختِ سفر باندھے ہوئے
کر دیا تقدیر نے بے بس ہمیں کچھ اِس طرح
جِس طرح صیاد ہو طایرٔ کے پر باندھے ہوئے
اپنی مرضی کا ہر اِک منظر دِکھاتا ہے ہمیں
ایسا لگتا ہے وہ ہے سب کی نظر باندھے ہوئے
چل پڑے ہیں ہم اگرچہ گھر سے خالی ہاتھ ہی
اپنے پلوُ سے ہیں یادیں کچھ مگر باندھے ہوئے
باندھ رکھا ہے ہمیں دِل نے وفا کی ڈور سے
جِس طرح مٹی ہے صدیوں سے شجر باندھے ہوئے
چل پڑے عذراؔ تلاشِ زندگی میں پھر سے ہم
اپنے قدموں سے کویٔ لمبا سفر باندھے ہوئے