اپنی کچھ تنہائیاں لے کر بحر جاتے ہیں لوگ
قسمت کا کہنا کہ بڑی دیر جاتے ہیں لوگ
اٹھی نگاہ تو نظارے جھکی پلک تو اندھیرے
صبح کے اجڑے پھر کس سحر جاتے ہیں لوگ
تیرے جانے کا سبب اور زمانے کے سوال
ہربار یوں دے کر مجھے زہر جاتے ہیں لوگ
نگاہ پرنم کو کیا کچھ ملتا ہے سرور
تیری بام پر آکے ٹھہر جاتے ہیں لوگ
بات رسوائی کی ہوتی تو جھیل بھی لیتے
مگر اُس کے بعد بڑا قہر ڈھاتے ہیں لوگ
وقت کی قضا سے پہلے ہی ملو سنتوشؔ
کیا معلوم کہ کس پہر جاتے ہیں لوگ