اپنی ہستی میں وہ فنا ہو کر
"جا رہا ہو کوئی خفا ہو کر"
کتنی رسوائی مول لی ہے یہاں
یادِ جاناں میں اب تباہ ہو کر
اس کی آنکھوں سے گر گئی ہوں یہاں
اپنے دشمن کی بد دعا ہو کر
ایک دن تو ضرور سنبھلے گا
عزم و ہمت میں مبتلا ہو کر
حوصلے سے تو کام لے وشمہ
بن کے ہونٹوں پہ رہ گلہ ہو کر