ہے جلوہ گر جو منزلِ تشکیک کیا کروں
اپنی ہی سوچ کی یہاں تضحیک کیا کروں
ڈھلتے ہی شام آنکھ کا سورج جو بجھ گیا
غم سے میں اور رات کو تاریک کیا کروں
جب اُس نے میرے درد کو سمجھا نہیں کبھی
پھر پیار کی میں مانگ کے بھی بھیک کیا کروں
اک نام اُس کے پیار کا دیوان کر دیا
یہ شعر اُس کو ہدیہءِ تبریک کیا کروں
وشمہ ترا وجود میں حلیہ اتار کر
میں اور تجھ کو تُو بتا نذدیک کیا کروں