اپنے اشک چھپاکر اک الہام دیجئے
عشق سے ہٹ کر بھی کچھ کام کیجئے
کوئی یاد سب سکون چھین جائے تو
فقط منتظری کو دیئا اور بام دیجئے
تیرے گلستان میں بُوکھے پرندے دیکھو
غم چُن رہے ہیں انہیں دام دیجئے
ملے گا بھی فرقت کے سوا کچھ نہیں
شجاعت کے لئے ہر حسرت تھام لیجئے
مجھ سے جلواگری نے قرار چھین لیا
دنیا غم دیکر کہتی ہے آرام کیجئے
اک شوخی سے ہار چکی ہے سنتوشؔ
کہو کہ اس زندگی کیا نام دیجئے