خو شبو نہ بکھیری تو ہو ا کا دوش ٹھہرا
خود نہ پہنچی تو زمانے کا دو ش ٹھہرا
کہنے کو تو بہت کچھ کہتی نبائو ں کی عہدے وفا
مِل نا با ئی تو قسمِت کا دوش ٹھہرا
سوکھ کر گلشن کا حسن بھی جا تا رہا
با رش نہ ہوئی تو با دل کا دوش ٹھہرا
حا ل دل ایسا کہ خد ا سے غا فل کر دیا
دل نے کی پیر وی تو ہم کا دوش ٹھہرا
منزل عشق اتنا آسا ں نہیں کہ چل دیے
پھنس گئی بھنور میں تو دریا کا دوش ٹھہرا
اپنے عہدوں سے مت بدل یہ دستور عشق نہیں
بہا ر نا آئی تو خزا ں کا دوش ٹھہرا
کچھ تصور رکھنا کو ئی جلتا رہے گا تا قیامت
رات اند ھیر ی رہی تو مہتا ب کا دوش ٹھہرا