اپنے پیروں پہ وار کرتے ہیں
جو ترا اعتبار کرتے ہیں
ہم وہ گل ہیں جو پیڑ سے گر کے
آرزوئے بہار کرتے ہیں
کام آیا نہ کوئی مشکل میں
ہم جنهیں یار یار کرتے ہیں
میں ہوں خود زندگی سے شرمندہ
آپ کیوں شرمسار کرتے ہیں
حوصلے میرے آزمانے کو
وہ ستم بار بار کرتے ہیں
شعر پر واہ واہ ہوتی ہے
جب بهی ہم زکر_یار کرتے ہیں
جن کے ایماں حسرت! سچے ہوں
وہ ہی منزل کو پار کرتے ہیں