اپنے ہاتھوں پہ ترا نام لکھوں یا نہ لکھوں
اپنے سر پیار کا اِلزام لکھوں یا نہ لِکھوں
ایسی اِک شام کہ جِس شام کو دیکھا تھا تجھے
میں وہی تذکرۂ شام لِکھوں یا نہ لِکھوں
جِس نے اِک روز مٹا ڈالا مری ہستی کو
اپنی وہ شہرتِ گمنام لکھوں یا نہ لِکھوں
موجیں آتی ہیں تری یاد کی دستک دینے
پانیوں پر کویٔ پیغام لکھوں یا نہ لِکھوں
کتنی دِلکش تری باتیں ہیں کہوں یا نہ کہوں
کتنا پیارا ہے ترا نام لکھوں یا نہ لِکھوں
زندگانی میں نییٔ صبح کا آغاز ہو ا
دُور دِل سے ہوۓ اوہام لِکھوں یا نہ لِکھوں
وہ ہے نا و ا قفِ آ د ابِ محبت عذراؔ
اُس کے جذبے ہیں ابھی خام لِکھوں یا نہ لِکھوں