خوشیوں کی چلمنوں میں نہ غم کے غبار میں
اپنی تو ساری عمر ہے تیرے حصار میں
مرقد پہ کوئی بکھرا کوئی ہار بن گیا
پھولوں سے کوئی پوچھے کیا بیتی بہار میں
یہ حوصلہ کہاں تھا دل بد گمان کا
دنیا کو سہہ رہا ہوں تیرے اعتبار میں
فارغ ہوئی تو دیکھے گی کلیوں کو اک نظر
کھوئی ہے آنکھ ابھی تیرے نقش و نگار میں
یہ زخم تیری یاد میں جینے کی سزا ہیں
چھوڑو انہیں نہ آئیں گے تیرے شمار میں
لوگوں نے اپنے پاس سے قصہ بنا لیا
ہم پھر رہے تھے اپنے ہی اپنے مدار میں