کبھی کبھی اپنے آپ میں رہنا بھی اچھا لگتا ہے
ہوش میں رہ کے ہوش کھونا بھی اچھا لگتا ہے
ہجوم شہر میں بیٹھو اور یوں لگے کوئی نہ ہو
اپنا یہ بےخودی کا عالم بھی کبھی اچھا لگتا ہے
کیا ہے کیوں ہے جو نیند آتی نہیں کچھ دنوں سے
بلاوجہ راتوں کو یوں جاگنا اچھا لگتا ہے
کوئی آس پاس نہیں مگر جیسے کوئی رہتا ہے میرے ساتھ
وہ انجان سا گماں وہ بے نام سا شخص اچھا لگتا ہے
سوچو تو جیسے داستاں بنتے جاتے ہیں پریوں کی
وہ راجہ کی رانی خود کو سوچنا رباب اچھا لگتا ہے