سر عام وہ تیرا حسن لٹانا اچھا نہ لگا
یوں باغ میں بن ٹھن کے آنا اچھا نہ لگا
تعریف نہ کروں تیرے حسن کی یہ ہو نہ سکا
ترچھی آنکھوں میں کاجل کا لگانا اچھا نہ لگا
اور تجھہ سا ہوتا ہے ہزاروں میں کوئی ایک حسین
ریشمی زلفوں سے تیرا چہرہ چھپانا اچھا نہ لگا
وہ نازک پن تیرا بے ہوش جوانی تھی
مخملی گھاس پہ بے جان سا جانا اچھا نہ لگا
وہ سادگی جب جھولا جھلا تیرا کسی سے
سمجھ کے ظالم سامنے بٹھانا اچھا نہ لگا
وہ ہمت تیری مجبوری کیوں بن بیٹھی
وہ تیرا ہنس کے آنسو بہانا اچھا نہ لگا
یوں تو ہر روز کئی لوگ مل کے بچھڑ جاتے ہیں
جانے امیرکیوں ان کو چھوڑ آنا اچھا نہ لگا