حسن والوں کا قتل عام کیا! اچھا نہیں کیا تم نے
دوستوں کو الزام دیا ! اچھا نہیں کیا تم نے
جو اپنے کاندھوں پر بٹھا کر لائے تھے تمہیں
انہیں کاندھوں کو بدنام کیا ! اچھا نہیں کیا تم نے
ہم تو پھول بن کر خو شبو بانٹتے رہے صدا
تم نے ببول بونے کا کام کیا ! اچھا نہیں کیا تم نے
رفیق بن کر ہمیشہ تمہارے ساتھ چلے
دشمنوں میں ہمارا نام لیا ! اچھا نہیں کیا تم نے
خوب محفلوں میں ساقی بنے پھرتے تھے
گر پڑے رندوں نے جب جام دیا! اچھا نہیں کیا تم نے
دکھی دلوں کو رلایا اپنوں پہ تیر چلایا زہر پھرا پیالا پلایا
یہ کس ستم کا اہتمام کیا ! اچھا نہیں کیا تم نے
بلال کی آواز تو ہے طوطی کی آواز نقار خانے میں
مگر جو تم نے نام لیا ! اچھا نہیں کیا تم نے