اڑتا خاک سر پے چھومتا دیکھو دیوانہ آتا ہے
ہزاروں انگلیاں اٹھتی ہیں ہائے مستانہ آتا ہے
آتے دیکھتے سہم سے گئے کیوں وہ
طوفانوں کو بھی دیکھو گھبرانا آتا ہے
آئے گا اسے کبھی میری وفا پے یقن
لوٹنا دل اور جان کا دینا نظرانا آتا ہے
اری شمع بچا کے دیکھ کتنی تیری طاقت ہے میں دیکھوں
قسم ہے حسن کی تیرے پروانے کو بھی مر جانا آتا ہے
شبنم کی طرح رو کے کیوں خود کو بدنام کریں
گر رو دئیے تو دریا بہانہ آتا ہے
کبھی حساب لوں گا تیری جفاؤں کا میں ظالم
تجھے تو روز روز یہ جو دل دکھانا آتا ہے
بھرے زخم جہاں کی باتوں کے مشکل سے ابھی ابھی
ہو جاہیں پھر ہرے وہ خوب تجھے ستانا آتا ہے
ارشد جی گزر ہوتا تھا جب میرا پریوں کے کوچے سے
وہ کہہ اٹھتی تھیں بیک وقت کہاں سے لیے یہ سارا زمانہ آتا ہے