اک تیرے لئے میں نے سحر، رکھی ہوئی ہے
اور تصویر تیری مد نظر، رکھی ہوئی ہے
اس بار تجھے دیکھ کہ مدہوش ہوا کون
اس شہر کے لوگوں کی خبر، رکھی ہوئی ہے
بے تاب ہے، آوارہ ہے، میری یہ نظر
جس سمت سے آو گی ادھر ، رکھی ہوئی ہے
دھڑکن دل، کیف نظر، نام تیرے کی
ابھی ہمت سر، جان جگر ، رکھی ہوئی ہے
ان عشق کی راہوں میں رکیں گے نہ کسی طور
زندگی اپنی اسی سمت سفر، رکھی ہوئی ہے
اداسی ہے، تنہائی ہے، اس ذہن میں منغض
جز تیرے اور کوئی چیز اگر، رکھی ہوئی ہے