اک دشت بے کنار ہے یہ میری ذات میں
سویا ہوا جہان ہے جب مشکلات میں
اپنی نظر سنوار کے دیکھا جو آپ کو
اک آپ کا ہی سلسلہ تھا کائنات میں
آنکھوں سے اب حضور ! اشارہ نہ کیجئے
اور یوں نہ آزما ئیے اب بات بات میں
غم خانہءِ غریب ہے رک جایئے مزید
کیسے بھرے گا زخمِ جگر ایک رات میں
رخسار و ابرو ،گیسو و لب ، سب اداس ہیں
رہتی ہے سب کے دیکھ لو تنہائی گھات میں
وہ لکھ دے آج میری بھی قسمت کا فیصلہ
وشمہ جگر کا خون ہے کالی دوات میں