اک زمانے سے ہوں اداس بہت
اب تو ہونے لگی ہے یاس بہت
گرچہ ہے بحرِ بیکنار یہ دل
ہے لبوں پر ہمارے پیاس بہت
کیا کوئی اور غم سہے ایسا
ہم نے دیکھی شکستہ آس بہت
تھا، نہ ہے اور نہ ہوگا موت کا خوف
بڑھ گیا زیست کا ہراس بہت
آنا جانا لگا رہا اس کا
ہم کو دنیا نہ آئی راس بہت
عام ہو جائے گا جہاں میں وہ
جو بنائے گا خود کو خاص بہت
اس کو چُھوا تو یہ ہوا احساس
سخت ہے کسقدر کپاس بہت
دھڑکنیں اپنے دل کی سننے لگا
جب ہوا وہ ذرا سا پاس بہت
یوں ہنسے گا تو کوئی کیا جانے
مدتوں سے ندیم اداس بہت