اک عُمر کے قیام سے آگے نہیں بڑھے
ہم خواہشِ تمام سے آگے نہیں بڑھے
روکا ہُوا ہے پلکوں پہ سُورج کو شام سے
کچھ بھی ہو وقت شام سے آگے نہیں بڑھے
اُس نے کہا تھا میرا کریں انتظار، یاں
اِک گام اس مقام سے آگے نہیں بڑھے
دل نے بہت کہا کہ کہو جو بھی دل میں ہے
رشتوں کے احترام سے آگے نہیں بڑھے
کتنی تھیں کہکشائیں نگاہوں کے سامنے
پر ہم تمہارے نام سے آگے نہیں بڑھے
تُم کو عزیزِ جاں ہیں لبوں کا یہ ابتسام
یُوں ہم اس ابتسام سے آگے نہیں بڑھے
عاشی یہ خواہشوں کے پرندے عجیب ہیں
اُڑ کے بھی دل کے بام سے آگے نہیں بڑھے