اک پاگل سا لڑکا
Poet: توصیف احمد کشافؔ By: توصیف احمد کشافؔ, Lahoreاک پاگل سا لڑکا
اک پاگل سا لڑکا تھا
اپنے آپ میں گم سم سا
زخم ملے تو بھی مسکاتا رہتا تھا
لوگوں پہ اعتبار کر کے اس نے بہت دھوکے کھائے
جتنے بھی دوست ملے
سب نے اسے زخم لگائے
SO
سب سے دور
خواب نگر میں
اس نے اپنی دنیا بسا لی
اپنی جنت، اپنا دوزخ ، اپنے لوگ
اپنا دکھ اپنے آپ سے کہتا تھا
سب کے دکھ اپنے دکھ سمجھتا تھا
سب میں اپنی خوشیاں بانٹتا رہتا تھا
اس کی دنیا میں ہوس کا ذکر نہ تھا
اس کی دنیا میں دولت کی پرواہ نہ تھی
اس کی دنیا میں خوشبو جیسے لوگ تھے
اس کی دنیا میں نفرتوں کی ہوا نہ تھی
پھر
جانے اس پگلے کو کس کی نظر لگی
اس کے خواب نگر میں بھی اک رانی آ گئی
اس کی دنیا
تخت و تاج
چاہت آگ میں جل گئے
اس کی دنیا اجڑ گئی
اس نے اپنی رانی کو پانا چاہا تو
اس کی ہستی اجڑ گئی
ذات پات کے پجاریوں نے
جھوٹی دنیا کے شاہوں نے
اس کے دل و روح کو گھائل کیا
اس کی مسکان چھین لی
سنا ہے اس نے محبت پر سب تن ، من ، دھن وار دیا تھا
راہِ وفا میں
نامِ وفا پر
اپنا سب کچھ ہار دیا تھا
پر
اسے غم کے سوا کچھ نہ ملا
پھر اس نے مر جانا چاہا
پر موت نہ مانی
سنا ہے ابھی بھی کسی لاش کی مانند زندہ ہے
ابھی بھی کھوکھلے قہقہے لگاتا ہے
پر رات میں
سب سے چھپ کر
چاند کو
آنسووں کی زبان میں اپنا دکھ سناتا ہے
سنا ہے اب اسے محبت سے نفرت ہو گئی ہے
اپنی دنیا الگ سے بسانے کی کوشش میں ہے
پھر سے اپنی دنیا میں جانے کی کوشش میں ہے
سب چاہنے والو دعا کرو
یہ پگلا سا لڑکا جس کو
جھوٹی دنیا نے نٹ کھٹ سچے لڑکے سے
ٹوٹا بکھرا آدمی بنا دیا
جس کے خواب نگر کو جلا دیا
پھر سے اپنی دنیا بسانے میں کامیاب ہو جائے
اپنی مستی میں کھو جائے پھر
چاہت روگ کو بھلا دے
اس سوگ کو بھلا دے
توصیف احمد کشافؔ
راہِ نیکی میں تو سچے لوگ بھی ٹوٹ جاتے ہیں
دوست جو ساتھ تھے کبھی نڈر ہمارے اے میاں
وقت کے ساتھ وہ سبھی ہم سے اب چھوٹ جاتے ہیں
ہم چھپائیں کس طرح سے اب محبت کا اثر
دل کے گوشوں سے وہ جذبے خود ہی اب پھوٹ جاتے ہیں
کچھ جو خوابوں کے نگر میں لوگ تھے نکھرے ہوئے
ہو کے بکھرے وہ ہوا کے ساتھ ہی لوٹ جاتے ہیں
جو کیے تھے ہم نے دل کے اس سفر میں وعدے سب
وقت کی قید میں وہ سارے ہم سے اب روٹھ جاتے ہیں
پھول کی خوش بو کی صورت تھی ہماری یہ وفا
یاد کے عالم میں اب وہ سب ہی بس چھوٹ جاتے ہیں
مظہرؔ اب کہتے ہیں یہ سب ہی فسانے پیار کے
کچھ حسیں لمحے بھی دل سے اب تو اتر جاتے ہیں
خواب بکھرے ہیں مرے اس دل کے ہی ویرانے میں
ہم کو تنہا کر دیا احساس کی اس دنیا نے
جیتے ہیں ہم جیسے جلتے ہوں کسی پیمانے میں
ہر قدم ٹھوکر ملی ہے، ہر جگہ دھوکا ملا
پھر بھی تیری یاد آئی ہے ہمیں زمانے میں
اپنے ہی گھر سے ملے ہیں ہم کو اتنے دکھ یہاں
بے وفا نکلے سبھی رشتے اسی خزانے میں
شمعِ امید اب تو آہستہ سے بجھنے لگی ہے
آگ سی اک لگ گئی ہے دل کے اس کاشانے میں
ہر سخن خاموش تھا اور ہر زباں تنہا ملی
غم ہی غم گونجا ہے اب تو بھیگے ہر ترانے میں
دل جسے سمجھا تھا اپنا سب ہی کچھ اے مظہرؔ
اب وہ بھی تو مل نہ سکا ہم کو کسی بہانے میں
نیک سیرت لوگ ہی دنیا میں روشن ہوتے ہیں
جس کی گفتار و عمل میں ہو مہک اخلاق کی
ایسے ہی انسان تو گویا کہ گلشن ہوتے ہیں
نرم لہجہ ہی بناتا ہے دلوں میں اپنی جگہ
میٹھے بول ہی تو ہر اک دل کا مسکن ہوتے ہیں
جن کے دامن میں چھپی ہو عجز و الفت کی ضیا
وہی تو اس دہر میں پاکیزہ دامن ہوتے ہیں
بات کرنے سے ہی کھلتا ہے کسی کا مرتبہ
لفظ ہی تو آدمی کے دل کا درپن ہوتے ہیں
جو جلاتے ہیں وفا کے دیپ ہر اک موڑ پر
وہی تو اس تیرگی میں نورِ ایمن ہوتے ہیں
تلخ باتوں سے تو بس پیدا ہوں دوریاں سدا
اچھے الفاظ ہی تو الفت کا کندن ہوتے ہیں
مظہرؔ اب اپنے سخن سے تم مہکا دو یہ جہاں
اہلِ دانش ہی تو علم و فن کا خرمن ہوتے ہیں
وقت آئے گا تو سورج کو بھی رَستہ دِکھا دیں
اَپنی ہستی کو مٹایا ہے بڑی مُشکل سے
خاک سے اُٹھیں تو دُنیا کو ہی گُلشن بنا دیں
ظُلمتِ شب سے ڈرایا نہ کرو تم ہم کو
ہم وہ جگنو ہیں جو صحرا میں بھی شَمعیں جلَا دیں
اَہلِ دُنیا ہمیں کمزور نہ سمجھیں ہرگز ہم وہ
طُوفاں ہیں جو پل بھر میں ہی بَستی مِٹا دیں
خامشی اپنی علامَت ہے بڑی طاقت کی
لَب ہلیں اپنے تو سوئے ہوئے فتنے جگا دیں
ہم نے سیکھا ہے سَدا صَبر و قناعت کرنا
وَرنہ چاہیں تو سِتاروں سے ہی مَحفل سَجا دیں
راہِ حق میں جو قدم اپنے نِکل پڑتے ہیں
پھر تو ہم کوہ و بیاباں کو بھی رَستہ دِکھا دیں
مظہرؔ اَب اپنی حقیقت کو چھُپائے رَکھنا
وقت آئے گا تو ہم سَب کو تماشا دِکھا دیں






