اک پل بھی جو ٹھہریں تو گزرا نہیں جاتا
ہوتا ہے مگر صرف نظارہ نہیں جاتا
گہرائی میں بہتا ہے بہت عشق کا دریا
الفت کے سمندر کا کنارہ نہیں جاتا
دستک در دل پر نہیں دیتی شب ہجراں
اب دیدہ حیراں بھی ستارہ نہیں جاتا
اس کے لئے بیتاب ہے پھر بھی دل بیتاب
وہ شخص جو ہوکر بھی ہمارا نہیں جاتا
حق تلفی انساں پہ زباں چپ نہیں رہتی
سچ پوچھو تو اب ضبط کا یارا نہیں جاتا
ہوتا نہیں کب اس کا کرم شامل حالات
کب اس کی مدد اس کا سہارا نہیں جاتا
دنیا کا کوئی کام بھی ممکن نہیں وشمہ
جب تک مرے مالک کا اشارا نہیں جاتا