اگر تیرا اشارہ اے نگاہ یار ! ہو جائے
تو دن پھر جائین میرے، اور بیڑا پار ہو جائے
توجہ سے تری محروم اگر بیمار ہو جائے
دوا بے سود ہو جائے ، دعا بے کار ہو جائے
جدائی کا تصور تک نہ ہو ، وہ پیار ہو جائے
جبین شوق جذب آستان یار ہو جائے
جو تم آؤ تو کلیاں مسکرائیں، پھول کھل اٹھیں
بہار انگڑائیاں توڑے ، چمن بیدار ہو جائے
قیامت ہے ، کرشمہ ہے ، نگاہ یار کی جنبش
کوئی مدہوش ہو جائے ، کوئی ہشیار ہو جائے
ہماری زندگی کا آسرا سوز محبت ہے
سکوں مل جائے تو جینا ہمیں دشوار ہو جائے
ابھی جلدی ہی کیا ہے ، میں ابھی زندہ سلامت ہوں
تم آنا جب، کہ جب ، میت مری تیار ہو جائے
عدو جب بزم میں ہو اپنا ہونا کب مناسب ہے
کہیں ایسا نہ ہو باتیں بڑھیں ، تکرار ہو جائے
یہ پیمانہ نہیں، ساقی سے پیمان محبت ہے
جسے اقرار ہو ٹھرے ، جسے انکار ہو “ جائے“
نصیر اب تو سفینہ ڈوبنے کو ہے کوئی دم میں
وہ آ جائیں تو شاید اپنا بیڑا پار ہو جائے