تو پھر یہ طے ہے کہ مجھکو ہنر نہیں آتا
میرے اشعار میں گر تو نظر نہیں آتا
مجھے سمیٹنا چاہو تو یاد میں بھر لو
کہ گیا وقت کبھی لوٹ کر نہیں آتا
یہ تو بس خود فریبیاں سی ہیں محبت کی
وگرنہ چاند ندی میں اتر نہیں آتا
سنا ہے شجر کے پتے بھی بین کرتے ہیں
پرندہ لوٹ کر جب اپنے گھر نہیں آتا
حسن شاید وجود ناز سے واقف نہ ہو
جب تلک شہر میں آئینہ گر نہیں آتا
میں سوچتا ہوں کہ دنیا میری کیسی ہوتی
اگر وہ پھول سا چہرہ نظر نہیں آتا