سبھی کہتے زمانے میں کوئی انسان اچھا تھا
اگر ہوتی محبت میں تری پہچان اچھا تھا
ترے آنے سے بگڑا ہے یہ چہرہ میرے جیون کا
مرے ماتھے پہ چاہت کا وہی بہتان اچھا تھا
جی ایسا ہو نہیں سکتا کہ کانٹے پھول بن جائیں
وگر نہ زندگی کا راستہ گنجان اچھا تھا
اگر ہم حال میں دیکھیں بہت تو ہم پرستی ہے
مرے سوچوں میں ماجی کا وہی انسان اچھا تھا
وہ بچھڑا ہے تو یاد آیا ستم کرتی رہی اس پر
مرا پیارا ،مرا دلبر،مرا دل جان اچھا تھا
مرے چاروں طرف ہی کیوں اگی کانٹوں کی بیلیں ہیں
مرے آنگن میں یادوں کا اگر گلدان اچھا تھا
اسے جب مار ڈالا ہے تو پھر کیا سوچنا وشمہ
مرے سپنے میں وحشی سا کوئی حیوان اچھا تھا