زیست کو لازوال کرتے ہیں
اہل دل بھی کمال کرتے ہیں
کام جو بے مثال کرتے ہیں
کب وہ فکر مآل کرتے ہیں
دور رہ کر ترے تصور میں
ہم بسر ماہ و سال کرتے ہیں
ساری دنیا ہے آپ کی شیدا
آپ کس کا ملال کرتے ہیں
وار کرنا تو اس کی فطرت ہے
سہنے والے کمال کرتے ہیں
اس کا ملتا نہیں جواب ہمیں
ان سے ہم جو سوال کرتے ہیں
ہنس کے کہتے ہیں ہم نہیں سنتے
ہم اگر عرض حال کرتے ہیں
جتنے شکوے ہیں ان کو مجھ سے ہیں
میرا کتنا خیال کرتے ہیں
کہنے والوں کا کچھ نہیں جاتا
سننے والے کمال کرتے ہیں
وہ ہے وعدہ خلاف اور یاسر
اعتبارِ وصال کرتے ہیں