ایسا لگتا ہے تجھ میں فرق آ گیا ہے،
شاید کہ تجھے اب کوئی اور بھا گیا ہے،
تُو ساتھ ہے بے شک مگر ساتھ نہیں
چشمِ شوق پے تری کوئی اور چھا گیا ہے،
اگرچہ ہو میری باہوں میں مگر خیال کہی
ترے بازوئوں کا ڈھیلا پن یہ بتا گیا ہے،
کون ہے وہ شخص جو بعد میں آکے
ترے دل سے میرے نام کو مٹا گیا ہے،
دے کے خواب میری چشِ شوق کو
پھر اشکوں کے دریا میں بہا گیا ہے،
میدانِ عشق میں آئے جب غم کے سپاہی
تنہا چھوڑ کے وہ اپنی جان بچا گیا ہے،
رہتا گر ساتھ میرے تو کوئی جیت نہ پاتا
مگر ہم ساتھی میرا ہی مجھے ہرا گیا ہے،
نہال اُچھل کے پکڑنا چاہا دامن چاند کا
میرا شوق مجھے منہ کے بل گِرا گیا ہے،