اب تو صحرا میں بکھر جانے کو جی چاہتا ہے
" ایسی تنہائی کہ مر جانے کو جی چاہتا ہے "
کتنی وحشت تھی مرے شہر کے ہر اک گھر میں
جانے کیوں پھر مرا گھر جانے کو جی چاہتا ہے
اب نہیں حوصلہ مجھ میں کہ میں اس سے کہدوں
اب تو تجھ سے بھی مکر جانے کو جی چاہتا ہے
کتنی بپھری ہوئی ہیں آج تو اس کی موجیں
اس سمندر میں اتر جانے کو جی چاہتا ہے
زندگی کیا ہے کبھی تو ہی بتا دے مجھ کو
کیوں مرا حد سے گذر جانے کو جی چاہتا ہے
لوگ سچے ہوں جہاں ساتھ نبھانے والے
اب کسی ایسے نگر جانے کو جی چاہتا ہے
فیصلہ کرنے میں درپیش ہے مشکل کیسی
لوٹ کر تیرا اگر جانے کو جی چاہتا ہے