خود سے دستبردار ہوا جاتا ہوں
ایسے بیزار ہوا جاتا ہوں
تیری چوکھٹ پے روند کر خود کو
گلِ گلزار ہوا جاتا ہوں
گِر کے ہاتھوں سے کھلونے کی طرح
ٹُوٹ کے شَہکار ہوا جاتا ہوں
اِک اُداسی مُرید ہے میری
میں بھی سرکار ہوا جاتا ہوں
جب سے سیکھا ہے زُباں آنکھوں کی
صاحبِ گُفتار ہوا جاتا ہوں
تیری اِک نِگاہِ توجہ کیلئے
رونقِ بازار ہوا جاتا ہوں