ایک اور شب گزر گیٔ فصلِ بہار کی
حد ہو گیٔ خدا کی قسم انتظار کی
بازو پکڑ کے دِل نے کہا بیٹھ جا زرا
پتّوں میںیہ ہلچل ہے کہ آمد ہے یار کی
دِل توڑ کے پتّوں سے ہوایٔں نکل گیٔ
آنکھوں میں اشک چھوڑ گیٔ غمکسار کی
دستور بہ دستور نبھانے کو چل پڑے
آنکھیں بچھی ہیں پھر میری رستے پہ یار کی
تھا مجھکو یقیں تجھ پہ ہمیشہ سے ہی مگر
تیری نظر ہی مجھ پہ نہ تھی ایتبار کی
خونِ جگر میں اپنے قلم کو ڈبو کے ہم
افسانے لکھ رہے ہیں محبت میں یار کی
ہے ایتبار تجھ کو میرے عشق پہ اگر
آ جاؤ ایک بار قسم تجھکو پیار کی
کیسے میں انتظار کروںٔ اور بتا دو
نظروں کو یاس ہے میرے چہرے کے یارکی
راتیں گزرتی ہیں میری تاروں کو جوڑ کر
ہر رات بک رہی ہے ہزاروں ہزار کی
فرقت میں تیری جانے کہاں تک چلے گیٔ
آنکھوں میں اشک لیکے مہبّت میں یار کی
دیوانہ مجھکو کہہ لُو مگر یہ بھی جان لُو
عاشق وہی ہے نام کماییٔ جو پیار کی
گر عشق ہے مرز تو دو ا بھی ہیی تو ہے
ہے عشق ہی جواب تو عاشق کے پیارکی
آ جاؤ تم کے دِل کو زرا چین تو ملے
حالت بری ہے میرے دلِ لالازار کی
اصغر ؔ زباں سے اپنے بیاں اور کیا کرے
سُن لو سدا تو میرے دلِ بے قرار کی