یہ وہی میرا نگر ہے تو مکاں سے آئی
ایک بستی مرے دل کے ہی جہاں سے آئی
میری سرحد میں غنیموں کا گزر کیسے ہوا
تھی سروں کی وہ جو دیوار کہاں سے آئی
یوں تو کہنے کو بس اک موج تھی پانی کی مگر
دیکھنا یہ ہیں کہ پل بھر میں خزاں سے آئی
بعد مدت کے ملا ہے تو مرے یار بتا
تیری آنکھوں میں اک ہی ہے بتاں سے آئی
اب کسی بات میں بھی جی نہیں لگتا میرا
دل میں آ بیٹھی ہے جو خواہش وہاں سے آئی
تیرے چہرے پہ عمرؔ آج یہ رونق کیسی
پھر طبیعت کوئی موضوع بیاں سے آئی
تذکرے جس کے کتابوں میں پڑھا کرتے تھے
دیکھ وشمہ وہ قیامت کی خزاں سے آئی