وہ جو خوشبو کی طرح آیا تھا
اب بھی سانسوں میں بسا رہتا ہے
من کے اندھیار میں روشن تھا دیا
اب بھی پلکوں پہ جلا رہتا ہے
اُس کا چہرہ وہ کتابی چہرہ
اب بھی خوابوں میں سجا رہتا ہے
اُس نے ہونٹوں سے پلایا تھا کبھی
اب بھی اُس مَے کا نشہ رہتا ہے
اس سے مِلنا ہے ابھی آخری بار
شعلہ ء عزم جلا رہتا ہے
ہاں اگر ٹوٹ گئی سانس کی ڈور
ایک دھڑکا سا لگا رہتا ہے