ایک زمانہ بیت گیا ہے تم کو مجھ تک آنے میں
Poet: علی محتشم منہاس By: حسن, Lahoreایک زمانہ بیت گیا ہے تم کو مجھ تک آنے میں
اتنا وقت کہاں لگتا ہے لوگوں کو پچھتانے میں
اپنا ساتھ رہا بس اتنا یعنی جتنی دیر لگے
ہاتھ سے ہاتھ ملانے میں اور ہاتھ سے ہاتھ چھڑانے میں
تیرے ہجر نے مار رکھا ہے ، یہ تو سچ ہے جانِ جاں!
پھر بھی مجھ کو عمر لگے گی اپنی جان سے جانے میں
تیری آنکھ سے تیر نکل کر میرے دل سے پار ہوا
خون دل ہے پیش ترے رخساروں کے نذرانے میں
بالوں کو شانوں پہ بکھیرے تم نکلے ہو شام ڈھلے
اب تو کوئی شک ہی نہیں ہے کالی گھٹا کے چھانے میں
بال پریشاں، سانسیں برہم ، چہرہ اجڑا اجڑا سا
تیرے کئی احساں ہیں مجھے ان حالوں تک پہنچانے میں
جان و دل سے محبت ہے تو رنج و راحت ایک سے ہیں
لطف تڑپنے میں بھی وہی ہے لطف ہے جو تڑپانے میں
میں نے مقابلہ جیت لیا ہے،باقی رہ گئے پیچھے سب
میرا شوق تھا سب سے آگے تیرے ناز اٹھانے میں
بے شک ادھر ادھر دیکھو تم ، مجھ کو سامنے پاؤ گے
بچ کے کہاں رہ سکتے ہو تم، مجھ سے آنکھ بچانے میں
اس مزدور سے روٹی چھینی میرے ملک کے حاکم نے
جس مزدور کی جان جلی تھی لوہے کو پگھلانے میں
مے کی کرامت کے صدقے میں جام اور فتوی' ایک ہوئے
رات گئے تک میں اور مفتی ساتھ رہے میخانے میں
محتشم اس سے تو بہتر تھا دشت کا رہنا سہنا ہی
گھر کو ڈھونڈنے نکلے تھے اور پہنچ گئے ویرانے میں
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے






