ایک وہ کہ مال و دل کے امیر یوئے
اور ہم ہیں کہ بے دام اور حقیر ہوئے
ان کی نگری سے جو بھی گزرے تھے
سنتے ہیں کہ سبھی اسیر ہوئے
محبت زندہ رہتی ہے ہمیشہ
تبھی تو تاج محل تعمیر ہوئے
سوچ کر یہ کھیل کھیلنا ہو گا
دنیا والے سخت منکر نکیر ہوئے
دونوں مل بیٹھیں گے تو مزہ آئے گا
آج ساقی اور واعظ بغلگیر ہوئے
جینا دوبر ہے مفلسوں کا اب
اپنے راہبر بے حسی کی تصویر ہوئے
وہ ایسی لیلیٰ ہے کہ جس کے ہجر میں کاشی
ہم پہلے رانجھا بنے پھر ہیر ہوئے