پلکوں میں چھپا اشک گرانا تو پڑے گا
اب آئینوں کا قرض چکانا تو پڑے گا
کشتی کو کیسے دیجئے ساحل کا دلاسہ
لہروں سے کیا قول نبھانا تو پڑے گا
جس بات نے دنیا میری ویران سی کر دی
اس بات کو ہنسی میں اڑانا تو پڑے گا
قسمت میں خواہ ہزار غموں کے پہاڑ ہوں
مسکان کو چہرے پہ سجانا تو پڑے گا
کل رات سمندر میں سنا آگ لگی تھی
ساحل پہ بنا نقش مٹانا تو پڑے گا
یہ بھی تواسی دست مسیحا کی دین ہے
اس درد کو سینے سے لگانا تو پڑے گا
کب حسن کے قیدی کی نکالے گا کوئی سانس
اس شوخ کو پہلو میں بٹھانا تو پڑے گا
جب ہر حسیں خیال کی تعبیر ہی تم ہو
مٹھی میں چھپا خواب دکھانا تو پڑے گا
کب تک انا کی بھینٹ چڑھاؤ گے آرزو
اےجان تجھے لوٹ کے آنا تو پڑے گا