اے مرے شہرِ محبت تیری شاموں کی قسم
جن پر ڈالے تھے کبھی جھولے ان آموں کی قسم
میں تجھے بھول نہ پاؤں گا میرے ٹنڈو جام
ماں کی آغوش اور باباکے شانوں کی قسم
گھر سے آتی تھی جو خوشبو کبھی روٹی کی
ماں کے ہاتھوں سے بنے ان کھانوں کی قسم
ٹوٹے دانتوں کو لے جاتی تھیں پریاں سب کے
بچوں کے ساتھ گھڑے سارے فسانوں کی قسم
جامن کے پتوں پہ لگا کر کتھا چونا
ہم نے جو کھائے تھے ان پانوں کی قسم
سامنے گھر کے سڑک تھی جو بڑی خونی تھی
اس پر جو جاں سے گئے ان کی جانوں کی قسم
گھر کے آنگن میں کپ اور پیالے رکھ کر
اک چمچے سے بجاتے تھے جو پیانوں کی قسم
خالی ڈبیوں سے بنے تھے جو ترازو اپنے
گھر کے اندر جو تھیں اپنی دکانوں کی قسم
گھر کے طاق میں جلتا تھا دِیا شب بھر جو
اڑتے تھے گرد ان کے جو اُن پروانوں کی قسم
اے مرے شہرِ محبت تیری شاموں کی قسم
جن پر ڈالے تھے کبھی جھولے ان آموں کی قسم