اے مرے شہرِ محبت تیری شاموں کی قسم
Poet: میم الف ارشیؔ By: Muhammad Arshad Qureshi, Karachiاے مرے شہرِ محبت تیری شاموں کی قسم
جن پر ڈالے تھے کبھی جھولے ان آموں کی قسم
میں تجھے بھول نہ پاؤں گا میرے ٹنڈو جام
ماں کی آغوش اور باباکے شانوں کی قسم
گھر سے آتی تھی جو خوشبو کبھی روٹی کی
ماں کے ہاتھوں سے بنے ان کھانوں کی قسم
ٹوٹے دانتوں کو لے جاتی تھیں پریاں سب کے
بچوں کے ساتھ گھڑے سارے فسانوں کی قسم
جامن کے پتوں پہ لگا کر کتھا چونا
ہم نے جو کھائے تھے ان پانوں کی قسم
سامنے گھر کے سڑک تھی جو بڑی خونی تھی
اس پر جو جاں سے گئے ان کی جانوں کی قسم
گھر کے آنگن میں کپ اور پیالے رکھ کر
اک چمچے سے بجاتے تھے جو پیانوں کی قسم
خالی ڈبیوں سے بنے تھے جو ترازو اپنے
گھر کے اندر جو تھیں اپنی دکانوں کی قسم
گھر کے طاق میں جلتا تھا دِیا شب بھر جو
اڑتے تھے گرد ان کے جو اُن پروانوں کی قسم
اے مرے شہرِ محبت تیری شاموں کی قسم
جن پر ڈالے تھے کبھی جھولے ان آموں کی قسم
فقیریہ ترے ہیں مری جان ہم بھی
گلے سے ترے میں لگوں گا کہ جانم
نہیں ہے سکوں تجھ سوا جان ہم بھی
رواں ہوں اسی واسطے اختتام پہ
ترا در ملے گا یقیں مان ہم بھی
تری بھی جدائ قیامت جسی ہے
نزع میں ہے سارا جہان اور ہم بھی
کہیں نہ ایسا ہو وہ لائے جدائ
بنے میزباں اور مہمان ہم بھی
کہانی حسیں تو ہے لیکن نہیں بھی
وہ کافر رہا مسلمان رہے ہم بھی
نبھا ہی گیا تھا وفاکو وہ حافظ
مرا دل ہوا بدگمان جاں ہم بھی
زِندگی جینے کی کوشش میں رہتا ہوں میں،
غَم کے موسم میں بھی خوش رہنے کی کرتا ہوں میں۔
زَخم کھا کر بھی تَبسّم کو سَنوارتا ہوں میں،
دَردِ دِل کا بھی عِلاج دِل سے ہی کرتا ہوں میں۔
وقت ظالم ہے مگر میں نہ گِلہ کرتا ہوں،
صبر کے پھول سے خوشبو بھی بِکھرتا ہوں میں۔
چاند تاروں سے جو باتیں ہوں، تو مُسکاتا ہوں،
ہر اَندھیرے میں اُجالا ہی اُبھارتا ہوں میں۔
خَواب بِکھرے ہوں تو پَلکوں پہ سَمیٹ آتا ہوں،
دِل کی ویران فَضا کو بھی سَنوارتا ہوں میں۔
کون سُنتا ہے مگر پھر بھی صَدا دیتا ہوں،
اَپنے سائے سے بھی رِشتہ نِبھاتا ہوں میں۔
دَرد کی لَوٹ میں بھی نَغمہ اُبھرتا ہے مِرا،
غَم کے دامَن میں بھی اُمید سجاتا ہوں میں۔
مظہرؔ اِس دَور میں بھی سَچ پہ قائم ہوں میں،
زِندگی جینے کی کوشَش ہی کرتا ہوں میں۔






