اب کھول دو حیات کے سربستہ راز کو
اے رشک ناز تھام لو اپنے نواز کو
راہیں مچل رہی ہیں ستارے وجد میں ہیں
میں چل دیا ہوں عشق کی پہلی نماز کو
دکھلا رہی ہے دھوپ ہواؤں کو آئینہ
تابندگی نے چھو لیا تیرے انداز کو
حاصل کا تقاضہ نہ منازل کا کوئی روگ
دل دے دیا ہے میں نے کسی بے نیاز کو
گویا میرے وجود کے معنی بدل گئے
یوں ڈھونڈتی پھرتی ہے حقیقت مجاز کو
اے وصل یار خوب ہیں تیری شرارتیں
لمحے میں قید کر دیا عمر دراز کو