اے پیکرِ نایاب
Poet: M Usman Jamaie By: M Usman Jamaie, karachiاے پیکرِنایاب
آنکھیں ہیں کہ پیالے
ہیں جن میں بھرے مہکی تمناؤں کے سب خواب
یہ چشمِ فسوں یا جنت کے کُھلے باب
اے پیکرِنایاب
ان ہونٹوں پہ مسکان کہیں سہمی ہوئی ہے
پنکھڑیاں ہیں، پنکھڑیوں پہ شبنم کی نمی ہے
سُرخی میں ہیں یاقوت، تو نرمی میں گُلِ تر
خواہش کوئی ان حُسن کے پاروں پہ جمی ہے
ہے ان پہ مچلتی ہوئی اک آرزو بے تاب
اے پیکرِنایاب
رخسار ہیں کہ دھوپ گلابوں میں گُھلی ہے
یا چاندنی راتوں سے شفق آن ملی ہے
مہتاب صبوحی کی ہے لالی میں نہایا
قدرت نے گلابی سی سحابوں پہ ملی ہے
یا ڈھلتی ہوئی دھوپ میں لالی لیے برفاب
اے پیکرِ نایاب
گیسو ہیں کہ شانوں پہ ترے گرتی ہوئی رات
بکھرے ہوئے، جیسے کسی شاعر کے خیالات
وہ ان کی درازی کہ کڑی ہجر کی راتیں
چہرے کے اجالے پہ اندھیروں کا یہ کمخواب
اے پیکرِنایاب
یہ جسم ہے نرماہٹیں پھولوں کی سمائے
کیا گُل بدنی، شاخ کوئی جھومتی جائے
ریشم میں یہ سونے کی گھلاوٹ سے بنا جسم
ہر انگ کوئی آرزو سینے میں جگائے
سانچے میں ڈھلی خوشبو ہے کہ تن میں ڈھلی تاب
اے پیکرِنایاب
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے






