کچھ پل کے لیے تو آرام ہو
تمہارے اپنوں میں میرا بھی نام ہو
یوں تو آنکھیں دید کو ترستی ہیں
چلو لبوں سے ہی سہی کچھ تو کلام ہو
اندر ہی اندر حسرتیں مٹا رہی ہیں
کہ کہیں تجھے بھی میرا سلام ہو
اے ہمسفر میرے دل کو میرے درد کو
تیری خامشیوں کو سمجھنے میں مقام ہو