باتوں پہ جس کی مجھ کو بہت اعتبار تھا
اک شخص تھا کہ جس سے بہت مجھ کو پیار تھا
حد سے زیادہ اُس کو تھا شرم و حیا کا پاس
اور ملنے کے لیے مرا دل بے قرار تھا
گستاخی مجھ سے ہو گئی پا کر اُنھیں قریب
پر دل پہ میرے تب مجھے کب اختیار تھا
وہ سامنے کھڑے ہیں مرے ہو کے بے حجاب
پیاسی نظر کو اِس گھڑی کا انتظار تھا
اب بس رقیب رہ گئے ہیں دنیا میں مرے
وہ چل بسا جو شخص مرا غم گسار تھا
وہ موسمِ خزاں میں تو ساتھی رہا مرا
بچھڑا سہانی رت میں کہ وقتِ بہار تھا
اترا رہے ہو دوستی پر جس کی آج تم
کل تک وہ شخص میرا بہت گہرا یار تھا
تم تھے نظر کا تیر ہدف باندھ کر کھڑے
قسمت مری کہ دل کے مرے آر پار تھا
ناظم، ثبات بھائی دو بیٹھے تھے جوڑے سر
مقصد غزل پہ دونوں کا کرنا بچار تھا