اپنے افکار ، اپنی تحریریں
اور ہوتی ہیں کیا یہ تقدیریں
میں بھی ہجرت سے لوٹ آتا ہوں
وہ بھی کھولے وفا کی زنجیریں
جب بھی کھیلا ہوں اُن کےرنگوں سے
باتیں کرتی ہیں مجھ سے تصویریں
بات کہنے کا حوصلہ تو کرو
ٹوٹ جائیں گی ساری شمشیریں
تُو بھی اک بار میرے دل سے گزر
نام لکھ دوں گا تیرے جاگیریں
آنکھیں پھوڑی ہیں نیند سے لیکن
خوابِ حسرت ہیں ساری تعبیریں
پیچھے ہٹتے ہی گر گئی ہیں قمر
میں نے کی تھیں ہوا پہ تعمیریں