بات بے بات مِری آ نکھ جو بھر آ تی ہے
بات اِ تنی سی نہیں جتنی نظر آ تی ہے
آپ ہی آپ گذ ر جاتے ہیں دِن رات مرے
زندگی مجھ کو کہاں کرنی بسر آ تی ہے
آپ بیزار ہیں مجھ سے تو کویٔ بات نہیں
کویٔ جب دور چلا جاۓ قدر آ تی ہے
سامنے ان کے زباں کھلنے نہ پاۓ شاید
بات کرنی مجھے اے دیدۂ تر آ تی ہے
اُن کے آنے سے بدل جاتا ہے منظر سارا
ایک رونق سی مرے گھر میں اُتر آ تی ہے
جب بھی آ تی ہے مجھے یاد زمانے کی جفا
ایک تلخی سی مرے لہجے میں در آ تی ہے
اِتفاقا'' تو نہ تھی اُن سے ملاقات مری
اُن کے کوچے میں مری راہگزر آ تی ہے
چاہیۓ اُن کو قدم دھیرے سے رکھیں عذراؔ