بات میں کیا بات تھی کہ رساکشی پھیل گئی
ہجر احساس میں کہیں بے حسی پھیل گئی
لگائی بجھائی تو ہر فرد کی عادت ٹھہری
مگر دو دل کے درمیاں تلافی پھیل گئی
نہ جانے کیوں اس سے ملنے کے بعد
ہونٹوں پر اس طرح کی خامشی پھیل گئی
رنجشوں نے کیسے باہمی اختلاف رکھے ہیں
کہ خیال کے خیال میں سرکشی پھیل گئی
پئمانہ غم تو چلکھتے ہی رہہ گیا پھر
حسرت آنکھ میں تھوڑی مئکشی پھیل گئی
کوئی بکھرا تو کیا؟ کوئی اجڑا تو کیا؟
جیسے زمانے میں ہر طرف خوشی پھیل گئی