بادل تھا مجھ پہ ٹوٹ کے برسا نہ تھا کبھی
پاس آ کے میرے پاس وہ آیا نہ تھا کبھی
اکثر وہ گھر میں آتا تھا چپکے سے شام کو
پر اس نے پیار سے مجھے دیکھا نہ تھا کبھی
اس کو تو جیسے پیار کا کچھ ہوش ہی نہ تھا
کوئی بھی لفظ پیار کا سوجھا نہ تھا کبھی
اکثر میں دیکھتا تھا اسے پیار سے مگر
بدھو سا کچھ سمجھ بھی تو پایا نہ تھا کبھی
اک روز میں نے پوچھا کرو گے کیا مجھ سے پیار
کہنے لگا کہ ایسا تو سوچا نہ تھا کبھی
میں نے کہا کمی تو نہیں مجھ میں کوئی بھی
پھر بھی کیوں مجھ کو آپ نے چاہا نہ تھا کبھی
آیا جواب پڑھنے سے فرصت نہیں ملی
اس کے علاوہ دل کو لگایا نہ تھا کبھی
اس کی معصومیت کو میں کرتا رہا تھا پیار
جس کی سمجھ میں پیار تو آیا نہ تھا کبھی
اس نے اگرچہ دی نہ کبھی پیار کی سوغات
لیکن ذرا بھی دل کو دکھایا نہ تھا کبھی
جانے کہاں ہے آج وہ اک بھولا بھالا شخص
جس نے کسی کو بھی تو ستایا نہ تھا کبھی