بادل تھا مجھ پہ ٹوٹ کے برسا نہ تھا کبھی
Poet: dr.zahid Sheikh By: dr.zahid Sheikh, Lahore Pakistanبادل تھا مجھ پہ ٹوٹ کے برسا نہ تھا کبھی
پاس آ کے میرے پاس وہ آیا نہ تھا کبھی
اکثر وہ گھر میں آتا تھا چپکے سے شام کو
پر اس نے پیار سے مجھے دیکھا نہ تھا کبھی
اس کو تو جیسے پیار کا کچھ ہوش ہی نہ تھا
کوئی بھی لفظ پیار کا سوجھا نہ تھا کبھی
اکثر میں دیکھتا تھا اسے پیار سے مگر
بدھو سا کچھ سمجھ بھی تو پایا نہ تھا کبھی
اک روز میں نے پوچھا کرو گے کیا مجھ سے پیار
کہنے لگا کہ ایسا تو سوچا نہ تھا کبھی
میں نے کہا کمی تو نہیں مجھ میں کوئی بھی
پھر بھی کیوں مجھ کو آپ نے چاہا نہ تھا کبھی
آیا جواب پڑھنے سے فرصت نہیں ملی
اس کے علاوہ دل کو لگایا نہ تھا کبھی
اس کی معصومیت کو میں کرتا رہا تھا پیار
جس کی سمجھ میں پیار تو آیا نہ تھا کبھی
اس نے اگرچہ دی نہ کبھی پیار کی سوغات
لیکن ذرا بھی دل کو دکھایا نہ تھا کبھی
جانے کہاں ہے آج وہ اک بھولا بھالا شخص
جس نے کسی کو بھی تو ستایا نہ تھا کبھی
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






