بار گاہِ عشق میں، میں سجدہ کیا ہے ان دنوں
داستاں سن کر تری میں خود سزا ہے ان دنوں
اب نہیں ہے حوصلہ میرے وجودِ خاک میں
بے بسی پھر آج چہرے سےنما ہے ان دنوں
یاد وہ آتی رہی عہدِ وفا کی داستاں
جب دیا بجھنے لگا تھا بچا ہے ان دنوں
بڑھتے بڑھتے بڑھ گئے جب ضبط غم کے فاصلے
یاد تیری جب بھی آئی میں فداہ ہے ان دنوں
جو نہ ہونا چاہئے تھا حادثہ ہو کر رہا
میرے اس کے بیچ آخر فاصلہ ہے ان دنوں
وقت کے ریلے میں سارے عد وپیماں بہہ گئے
جو ہماری جان تھا ہم سے جدا ہے ان دنوں
مانگنے کو مانگتے ہیں رب سے مشکل میں دعا
دل سے یہ آواز آئی ہے سزا ہے ان دنوں
پر نظر آئی نہ کوئی کچھ اثر کرتی ہوئی
پھر خموشی اور گہری تھی صدا ہے ان دنوں
تشنگی کی آگ میں آخر کو جل کر مر گئی
آس میرے تپتے صحرا میں ہے ان دنوں
درمیاں کیا کیا دلوں میں حادثے ہوتے رہے
اک تری خاطر یہ وشمہ پھر وفا ہے ان دنوں