میں نے درد کو سنبھال رکھا ہے
تیر ے لئے سوال رکھا ہے
تھام کر وفاؤں کی رسی
تر ے رستے میں جال رکھا ہے
جو آنکھوں کو خیرہ کر د ے
بخدا کیا جمال رکھا ہے
کہتے ہو بے وفا مجھ کو
دل کو باہر نکال رکھا ہے
سمجھ کر تری امانت ہر دم
خود اپنا خیال رکھا ہے
ڈھونڈتے ہو کیا میر ے اندر
زندگی بھر کا ملال رکھا ہے
مجھ سے پو چھو نہ حال یارو
میرا ماضی میں حال رکھا ہے
راستے سے ہٹ جاؤ عارف
رستے میں انکا مال رکھا ہے