بدلے موسم نہ کبھی آئے زمانے کتنے
مٹ گئے آنکھوں سے کچھ خواب پرانے کتنے
در بدر پھرتے رہے شوق جنوں کی خاطر
برگ آوارہ بنے بدلے ٹھکانے کتنے
تم کو کھونے کا کچھ احساس نہ ہو
سوچ کر چھوڑے یہیِ ہم نے آشیانے کتنے
مدتوں بعد تمہیں دیکھا جو
بج اُٹھے دل میں وہی ساز پرانے کتنے
آج بھی تیری محبت کا ہی اسیر ہوں میں
من میں ہیں آج بھی ارمان سہانے کتنے
اپنی الفت کو کہیں چھوڑ کر میں تنہا نہیں
ہمسفر اور بھی ہیں ساتھ دیوانے کتنے