اب کے برس پھر سے بھیگ جائیں ہم
کیا ہوا جو اک ہم اور سو ہیں غم
اب کی یادوں کی برسات ہے اور ہیں ہم
نہ ہی کوئی آنسو نہ ہی آنکھیں ہوئیں نم
ڈر ہے نہ کر دیں اسے بدنام ہم
کچھ اس کے اور کچھ دنیا کے ستم
اک دل تھا اور اک ہی تھا جسم
سب نکل گئے آگے پیچھے رہ گئے ہم
سچ ہے نہ کوئی پچھتاوا نہ ہی اب کوئی غم
خان سچ ہے وقت سے بڑا ہو کیا مرہم
آخر بھر ہی گیا روح کا ہر زخم