برسوں کی ریاضتوں کا صنم کچھ تو اجر ہو
صلہ چاہتے نہیں نتیجہ کچھ تو مگر ہو
اتنے تو وسیع دل ہو گے تم بھی کہیں
وہ جو تیری وجہ سے بکھرے ان کی بھی خبر ہو
ہم مانتے ہیں حسن میں پھول اپنی مثال ہیں
سایہ کرے خوب ہے ایسا جو شجر ہو
کاش ان کے روبرو ہوں میں بھی کبھی
کاش کبھی بزم میں میرا بھی ذکر ہو
وقت کی گردشوں میں ہم ٹھہر گئے ہیں عنبر
جیسے کہ اسی راہ سے پھر اس کا گزر ہو