میں اسے یاد آیا کیوں تھا
ابر بے وقت چھایا کیوں تھا
درد ‘ حدوں سے دور نکل گیا
مرہم بے اثر ‘ لگایا کیوں تھا
طوفاں سےشناسا ‘ نہ تھے مسافر
طوفاں ہی انہیں بھایا کیوں تھا
آج اسے بھلا کر دیکھ لیں
جس نے ہمیں بھلایا کیوں تھا
اسنے دن اپنے گزارے ‘ بن روئے
تبھی کہوں وہ مسکرایا کیوں تھا
برس ایک اور گزر گیا ‘ بچھڑے
ناصر اسے دیکھ پایا کیوں تھا