اپنے حصے میں پھر خوشی نہ رہے
یہ بھی ممکن ہے زندگی نہ رہے
تیری یادوں کے آسماں پہ ابھی
چاند تاروں کی اب کمی نہ رہے
دل کی حدت سے آؤ پگھلا لیں
برف ہجرت کی یہ جمی نہ رہے
آؤ کرتے ہیں امر مل جل کر
پیار اپنا یہ موسمی نہ رہے
میری آنکھوں میں تازگی نہ رہی
نغمے ہونٹوں پہ شبنمی نہ رہے
میں نہ آؤں گی لوٹ کر جانم!
تیری محفل کہیں سجی نہ رہی
کیا کروں گی میں ان ستاروں کا
چاند میں بھی جو چاندنی نہ رہے
وشمہ میں تو یہ چاہتی ہوں سدا
میری دشمن سے دشمنی نہ رہے
اب پلا دو نہ گھول کر امرت
میرے ہونٹوں پہ تشنگی نہ رہے